عورت نامہ

1679

عورت نامہ؛ آپ سوشل میڈیا گھر اخبارات ٹی وی پر جگہ اس موضوع کو زیرِ بحث دیکھ چکے ہوں گے اور روز دیکھتے ہی ہوں گے خود بھی کبھی کبھار اس حوالے سے بحث کرتے ہوں گے عورت کو موضوع گفتگو بنانا صرف مردوں کا ہی نہیں عورتوں کا بھی پسندیدہ مشغلہ ہے ہر عورت خاتون یا لڑکی خود کو دوسری عورت سے بہتر سمجھتی ہے خیر یہ تو ہر عورت کی ایک سادہ فطرت و عادت ہے مسئلہ تب ہوتا ہے جب وہ خود کو سب سے بہترین سمجھ کر معاشرے کے اصولوں سے ٹکر لیتی ہے تو ناصرف خود گرتی ہے بلکہ تمام عورت برادری کو بھی معاشرے میں بہت ہلکا کر دیتی ہے اس معاشرے کے کچھ مردوں کے نزدیک انکے گھر اور خاندان کی عورتوں کے علاوہ ہر عورت بدکردار بےحیا یا آزاد خیال ہوتی ہے.

بہت سے مرد حضرات ہمیشہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ عورتیں بدتمیز ہوتی ہیں بالکل ہوتی ہیں لیکن انکی بدتمیزی کے جواب میں ان پر ہاتھ اٹھانا انہیں ٹارچر کرنا آپکی کمزوری ہے چونکہ عورت ٹیڑھی پسلی کی پیدائش ہے اگر آپ اسے سیدھا کرنے کی کوشش کریں گے تو اسے توڑ دیں گے ایسا اسلام و حدیث کا مفہوم ہے اسلام میں کہیں بھی عورت پہ ہاتھ اٹھانے کا حکم موجود نہیں ہے لیکن چار شادیوں کے حق میں آواز اسلامی نقطہ نظر سے اٹھانے والے کچھ مرد حضرات اسلام کی ان شقوں سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں.

انہیں یہ شدید غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ عورت پہ ہاتھ اٹھا کر اسے مار پیٹ کر خاموش کروا دیں گے یا اسے سدھار لیں گے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہوتی ہے عورت کو ڈر ہمیشہ مرد کے پہلی دفعہ ہاتھ اٹھانے کا ہوتا ہے جب وہ اس پہلی بار سے گزر جاتی ہیں وہ مزید بےخوف ہو جاتی ہے اور اس کی بدتمیزی کی کوئی حد بھی نہیں ہوتی یہ کہنا یہاں ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ عورت کی زبان کے آگے ایک خندق ہوتی ہے ایسا ہماری بزرگ خواتین بھی کہتی ہیں ایسا بالکل نہیں کہ اس معاشرے کی سب عورتیں بدتمیز ہیں کچھ خواتین بہت صابر ہوتی ہیں لیکن وہ کچھ خواتین ہوتی ہیں ہمارے دور میں انکی تعداد بہت کم ہو چکی ہے.

عورت کے مکر اور بےصبر ہونے کی تصدیق تو ہمارا اسلام بھی کرتا ہے مگر مرد کو اللہ نے یونہی تو عورت سے بلند مرتبہ عطاء نہیں کیا بلکہ اسے حوصلہ و ضبط بھی عورت سے بڑھ کر دیا گیا ہے تبھی تو طلاق دینے کا اختیار بھی مرد کے پاس ہے جبکہ نکاح میں مرد و عورت دونوں کی رضامندی لازم ہے ہمارے ہاں بزرگ خواتین اکثر کہتی ہیں کہ اگر ایسا طلاق کا اختیار مرد کے پاس نہ ہوتا تو عورت نے تو ہر دوسری بات پہ شوہر کو طلاق دے دینی تھی یہاں اگر ہم ان خواتین کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس بات کی صداقت پر ہمیں کوئی شک نہیں رہے گا کہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے.

-advertisement-

ہم سوشل میڈیا پہ اکثر دیکھتے ہیں کہ شوہر مظلوم اور بیوی ظالم ہے اسکی ہیل کا ذکر ہوتا ہے جبکہ ہم سب جانتے ہیں حقیقت یہ نہیں ہے مرد بلند آواز سے بات کرے تو وہ مرد ہے تھکا ہوا ہے ہاتھ اٹھا دے تو وہ مرد ہے عورت کی ہی غلطی ہوگی کیوں زبان چلاتی ہے یہ ہمارے معاشرے کا ایک عام سا جملہ بن گیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں سارا الزام عورت کے کھاتے میں ڈال کر بےفکر ہو جاتے ہیں جب نکاح ہوتا ہے تو ذمہ داری کا زیادہ بوجھ عورت پہ آتا ہے بہت کم ایسا ہوتا ہے زیادہ تر مغرب ممالک میں جب شادی کے بعد شادی شدہ جوڑا الگ رہتا ہے پاکستان میں تو ایسا بہت سارے لڑائی جھگڑوں کے بعد ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے لڑ جھگڑ کے خود بھی الگ ہوئی ہے اور ہمارا بیٹا بھی پرایا کر گئی ہے.

کہیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھی نقصان میں ہمیشہ عورت رہتی ہے گڑیا سے کھیلنے والی کو گڑیا کی طرح احساسات سے عاری سمجھ لیا جاتا ہے عورت کم عقل ہوتی ہے مگر کیا اسے باربار طعنے کے طور پر یہ کہنا لازم ہے وہ کوئی کاغذ یا گیس کا چولہا نہیں ہوتی مگر پھر بھی جلا دی جاتی ہے عورت سے سب کا احترام کروایا جاتا ہے مگر اسکا احترام کرنا اکثر لوگ بھول جاتے ہیں عورت اس شوہر یا مرد کی کبھی عزت نہیں کرتی جو ہر بات میں اسکی تذلیل کرنے کا عادی ہو کچھ مرد اپنی بیٹی بہن اور ماں کی چلتی زبان پہ پہرے نہیں لگاتے مگر بیوی کو وہ زبان ہوتے ہوئے بھی گونگا دیکھنا چاہتے ہیں.

عورت خود نازک ہوتی ہے اگر اسے نرمی سے ٹریٹ کیا جائے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ بدتمیزی پہ اترے عورت کے ذمے بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جنکے بوجھ اسے تھکاتے ہیں اگر مرد ان حوصلوں میں دراڑ پیدل کرنے کے بجائے اسے حوصلہ دیں تو وہ عورت نا تو کمزور پڑتی ہے اور نا ہی وہ اپنے شوہر کو کسی مقام پر کمزور پڑنے دیتی ہے ایک عورت جب بہت سی عزتوں کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہے تو پھر وہ باقی ذمہ داریاں بھی نبھا سکتی ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ مرد اسکی ہمت بننا جانتا ہو اسے کمزور نہ کرنا چاہتا ہو.

اس لیے عورت کو دن رات بدتمیز و زبان دراز کہنے کی فکر چھوڑ کر اگر اسکی دیگر خوبیاں زیرِ بحث لائی جائیں تو خواتین کو بھی اچھا لگے گا اور گھر میں جھگڑے کے امکانات بھی بہت حد تک کم ہو جائیں گے باقی وجودِ زن کے بغیر تو کوئی رنگ کہیں ہیں ہی نہیں.

تبھی تو شاعرِ مشرق نے کہا تھا

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

By: مہہ ثنا خان

Also read

عورت کی آزادی اور آزادی مارچ