More

    پاکستان کا 2019

    پاکستان کا 2019
    Image:پاکستان کا 2019

    پاکستان کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں 19 کا ہندسہ بہت تاریک ثابت ہوا ہے اس سال پاکستان میں اگر کسی چیز نے بہت ترقی کی تو وہ صرف جرائم ہیں اس سال پاکستان میں ہونے والی پڑھے لکھے جاہلوں کی بڑی لڑائی ہو یا نواز شریف کا بہانے سے وطن سے بھاگ جانا ہو مشرف پرویز کی پھانسی کا آرڈر ہو بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوں یا ملک میں خطرناک حد تک بڑھنے والی مہنگائی ہو پاکستان میں پاکستانی حکومت ہر لحاظ سے ان تمام صورتحال سے نپٹنے میں ناکام ثابت ہوئی.اگر وکیلوں اور ڈاکٹرز کی لڑائی میں دیکھا جائے تو نقصان ملک کے تاثر اور عوام کو ہوا نہ تو کسی وکیل کا لائسنس منسوخ ہوا اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر کسی معاملے میں گناہگار ثابت ہوا. نواز شریف کا جیل سے سیدھا ملک سے باہر چلے جانا بھی ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس پر صرف تنقید کی جا رہی ہے کوئی ایسے اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں جس سے یہ محسوس کیا جائے کہ آیا واقعی وہ ملک کے مجرم تھے اور انہیں سزا دی جائے گی. مشرف پرویز اگر واقعی سزا کے مستحق تھے تو سزا دی جاتی مگر جرم کی تفصیلات اور ثبوتوں کے ساتھ اس طرح تو سپریم کورٹ نے صرف عوام کو ایک ایسا تاثر دیا ہے گویا جیسے ان سے بدلہ لیا جا رہا ہو سپریم کورٹ جذبات پہ نہیں ٹھوس گواہ اور ثبوتوں پہ فیصلے کرتی ہے تو پھر کسی بھی جج کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی قسم کا کوئی ریمارکس پاس کرے کیونکہ عوام کسی کو بھی نہیں بخشتی. یہ وہ سال تھا جس میں پھر سے بچے ٹارگٹ کیے گئے لیکن اس دفعہ انکا سامنا گولیوں اور دہشت گردوں سے نہیں تھا بلکہ اس دفعہ انکا سامنا تھق ایک دردناک موت سے وہ بھی اپنے جان پہچان والوں کے ہاتھ.ہم سب سوشل میڈیا پہ پڑھتے ہیں کہ عورتیں ایسی ہیں یا مرد ایسے ہیں دونوں طرف سے ایک دوسرے پہ الزامات لگانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہوتا لیکن مردوں کی لغت میں  بدکردار عورت کو لفظ طوائف سے دی جانے والی گالی موجود ہے مگر عورت کے پاس تو ایسی کوئی گالی نہیں ہے جو وہ بدکردار مرد کو دے سکے دیکھا جائے تو بچوں کو لڑکیوں کو خطرہ بدکردار مردوں سے ہے بدکردار عورتیں تو فقط عورتوں کی دشمن ہیں.اور جب ایسے مردوں کی شناخت ہو چکی ہے حکومت سزا پہ ایک قانون پاس کر چکی ہے تو اس سزا پہ عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا اس وقت اس جرم کے کتنے مجرم جیل میں موجود ہیں مگر سزا کسی ایک کو بھی نہیں دی گئی اب تک اور جب تک سزا نہیں دی جائے گی تب تک ڈر بھی نہیں ہوگاملک میں بڑھنے والی مہنگائی کے متعلق بات کریں تو موجودہ حکومت صرف اور صرف عوام کو بہلا رہی ہے کیونکہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے یا ترقی سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا وہ اب بھی ملک میں موجود مہنگائی سے لڑ رہے ہیں میں نے بہت سے لوگوں کو پڑھا ہے جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ عمران خان آپ ملک سے ٹیکسز ہٹا دیں کر دیں تمام اشیاء سستی اور مت فکر کریں آئندہ نسل کی تو جس ملک کی نسل زیادتی کا شکار ہو کر مر رہی ہو فاقہ کشی میں جرم کی جانب مائل ہو رہی ہو غربت اور بیروزگاری کے باعث  پڑھے لکھے نوجوان رکشہ ڈرائیور بن جائیں یا خودکشی کر رہے ہوں اس ملک کے پاس کونسی نسل بچے گی جسکا مستقبل حکومت سنوارنے کی کوشش کر رہی ہے. میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہم اگر کسی کے گناہ کا یا عیب کا یا برائی کا بہت چرچا کرتے ہیں اور اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو وہ عیب پلٹ کر ہمارے اندر آ جاتا ہے ن لیگ کے سپورٹرز نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کے سپورٹرز کو ذہنی غلام کیا تھا اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کیا ہوا وہ خود بھی نواز شریف کو کور کرنے کے چکر میں اسکے غلط کو صحیح ثابت کرتے رہے جس پر پی ٹی آئی والے کھڑے ہوئے اور انہوں نے انہیں پٹواری کا لقب دیا اور اب پی ٹی آئی والے بھی اسی برائی میں دھنس چکے ہیں انہیں بھی عمران خان حکومت کی کوئی غلط بات غلط نہیں لگتی. وہ ہمیشہ انہیں ڈیفینڈ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.اور ان تمام چیزوں پہ غور کریں تو ان سب نے مل کر پاکستان کی ساخت کو مجروح کیا ہے کسی بھی چیز کا پہلا اثر فرد کی ذات کو پڑتا ہے اسی طرح ملک میں ہونے والے کسی بھی جرم کا پہلا اثر ملک کے تاثر پہ پڑتا ہے.اور ہمارا میڈیا بڑھ چڑھ کر اسے پھیلاتا ہے ہم اب وہ قوم نہیں ہیں جنہوں نے مل کر ملک حاصل کیا تھا ہم وہ قوم ہیں جنہوں نے ملک کا حشر نشر کر دیا ہے انڈیا کی عوام کے ٹکڑوں میں بٹنے پر ہم پاکستانی بہت تبصرے کرتے ہیں مگر یہ غور نہیں کرتے ہم خود بھی پنجابی بلوچی سندھی پٹھان دیوبندی اہل حدیث بریلوی شیعہ مسلمان ہندو اور کرسچن پٹواری اور یوتھیوں والی برائی کا شکار ہو چکے ہیں. لڑکی اغواء ہو جائے تو لڑکی کے لباس کی غلطی ہے بچے زیادتی کا شکار ہو جائیں تو ماں باپ کی غلطی ہے کوئی نوجوان یونیورسٹی میں مارا جائے تو اس کا کسی دینی یا ا ب ج جماعت سے تعلق ہونا ہے. ہم یہ نہیں سوچتے اس نوجوان کی پرورش کے سالوں میں ماں باپ نے اسکی کامیابی کے کتنے خواب دیکھے اور امیدیں جوڑی تھیں جو صرف ایک گولی کے باعث ایک دن میں منوں مٹی تلے دب گئی ہیں.ایک لڑکی کی زندگی تباہ ہو چکی ہے اور ایک زیادتی کا شکار بچے کے والدین باقی بچوں کے معاملے میں کتنے نفسیاتی ہو چکے ہوں گے. ہم کچھ نہیں سوچتے بس غلطیاں ڈھونڈتے ہیں کیونکہ ہم سب پاکستانی ذہنی طور پر معذور اور دل سے بےحس ہو چکے ہیں اور سدھار کی کوئی روشنی بھی کہیں نظر نہیں آتی.تم تب تک نہیں محسوس کرتے جب تک وہ دکھ ہمارے گھروں کی راہ نہ دیکھ لے.

    By: مہہ ثنا خان

    Also Read Writer previous Articles:

    • نظریہ پاکستان اور ہمارا پاکستان