عام طور پر لڑکوں کو شادی کا شوق ہوتا ہے اور آدمیوں کو دوسری شادی کا پہلی شادی کا شوق کس عمر میں پیدا ہوتا ہے اس پر تو مختلف طبی اور معاشرتی ماہرین ہی روشنی ڈال سکتے ہیں البتہ دوسری شادی کا شوق عام طور پر پہلی شادی کے فورا بعد ہی پیدا ہوجاتا ہے
دو طرح کے آدمیوں کو دوسری شادی کا بہت شوق ہوتا ہے ایک وہ جنکی پہلی بیوی بری نکل جائے تو وہ سوچتے ہیں شائد دوسری کچھ بہتر ہو دوسرے وہ جنکی پہلی بیوی اچھی ہو اور وہ سوچتے ہیں کاش ایسی ایک دو اور ہوں
مرد کی پہلی شادی کافی صبر آزما اور طویل منصوبہ بندی والا کام ہے پہلے تعلیم مکمل کرنی پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پھر کبھی کبھی اپنی شادی سے پہلے بہنوں کی شادی کا انتظار کرنا وغیرہ پھر شادی کے اخراجات اماؤں کی دلہن کی تلاش سے شروع ہونے والا معاملہ چاند اور انگریزی کی تاریخوں سے ٹکراتا بارات میں کتنے مہمان ولیمے میں کتنے جہیز میں کیا ہوگا حق مہر کتنا سرمہ کونسی بھابھی آنکھ میں لگائے گی دودھ پلائ کی رسم کا کتنا نیگ کس پھوپھو کو منانا ہے کس کو زیادہ عزت دینا دلہن کے شرارے بیوٹی پارلر طے کرنا وغیرہ وغیرہ جیسے اخراجات اور دماغی تناو سے بھرپور مراحل کے بعد کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے اور اللہ اللہ کر کہ شادی انجام پاتی ہے
اسکے برعکس دوسری شادی اسکا کوئ جھنجھٹ نہیں پہلی شادی کی تیاری عام طور پر 6ماہ چلتی ہے اس دوران تمام پڑوسی عزیز و اقارب کو پتہ چل جاتا ہے پھر بھی پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ کب کھلا رہے ہو چاول جبکہ دوسری شادی کا تو علم ہی دو تین سال بعد ہوتا ہے یہ تو چوری چھپے کئے ہوئے عشق کے جیسی ہوتی ہے کہ جس کی خبر بس آپ کو ہوتی ہے اور پریشانی بھی آپ کو ہی ہوتی ہے کیونکہ عشق کا کم سے کم دوستوں کو بتا کہ مشورہ لیا جاسکتا ہے لیکن دوسری شادی میں فلاح کا راستہ خود ڈھونڈنا پڑھتا ہے… بہبود کا راستہ تو پہلی شادی اور دوسری شادی میں یکساں ہوتا ہے
پہلی شادی میں خرچہ بہت ہوتا ہے جبکہ دوسری شادی میں بیوی کا نخرہ بہت ہوتا ہے
پر پھر بھی مرد ایک دو سال تو خوش رہتا ہے کیونکہ چھپی ہوئی چیز زیادہ مزہ دیتی ہے آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں بچپن سے اب تک کتنی شادیاں اٹینڈ کی ہیں جو پہلی شادی تھی اور کتنی دوسری شادی اٹینڈ کی دوسری شادی تو ایسا معاملہ ہے کہ گواہ بناے ہوئے دوست بھی راز کھلنے پہ مکرتے نظر آتے ہیں گواہ ہی کیا کبھی کبھی تو خود دلہا پہلی بیگم کے ڈر سے دوسری شادی سے مکر جاتا ہے… اور کبھی دوسری بیگم کی محبت میں پہلی بیوی سے مکر جاتا ہے
پر سمجھ سے بالاتر بات یہ ہے کہ ایک چیز جو اسلام میں جائز ہے اسے معاشرے نے کیوں اتنا غیر مناسب فیل بنایا ہوا ہے…شاید ہمارے اوپر بتائے طریقہ کار کی وجہ سے کہ ہمارے یہاں دوسری شادی چھپا کر یا فطری تسکین کے لئے کی جاتی ہے جبکہ شادی پہلی ہو دوسری ہو اعلان کی حیثیت رکھتی ہے….پھر پہلی دھوم دھام سے اور دوسری کس گناہ کی طرح چھپا کر کیوں؟
کیونکہ جب بات کی جائے دوسری شادی کی تو خواتین یہ بات برداشت نہیں کرتی کہ ان کے ساتھ کوئی اور شریک ہو… اور ان کے اس ڈر کی وجہ مناسب حقوق کی ادائیگی نہ ہونا ہوتی ہے دوسری بیوی کو لا کر پہلی کو ملازمہ کی حیثیت عطا کر دیتے ہیں اگر مساوی حقوق کی ادائیگی ہو تو شاید عورت جہاں سب کچھ گھر بسانے کے لئے برداشت کرتی ہے دوسری بیوی بھی برداشت کر لے یہ سوچ کر کہ شوہر اپنی ہم عمر یا کسی غریب طلاق یافتہ کو سہارا دے رہا ہے لیکن عام طور پر مرد دوسری شادی اپنی سے آدھی عمر کی لڑکی سے اس کے ناز و انداز اٹھانے کے لئے کرتا ہے جس کی وجہ سے عورت کا دوسری عورت کو قبول کرنا مشکل ہوجاتا ہے
کہتے ہیں مرد کو چار شادی کی سنت یاد رہتی ہے اور رہتی بھی ہے پر وہ ساتھ میں قرآن کی یہ آیت کیوں بھول جاتا ہے
تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)۔
النساء، 4: 3
جس دن مرد کو قرآن کی یہ آیت یاد رہے گی نہ کوئی بیوی دوسری شادی سے ڈرے گی… نہ دوسری بیوی بری عورت کہلائے گی اور نہ ہی دوسری شادی کرنے والے مرد کو منہ چھپانا پڑے گا
دوسری شادی پہلی بیوی کا زیور یا گھر چھین کر نہیں ہوتی وہ برابر کے حقوق دے سکیں تب ہوتی ہے اس برابری کے حقوق پہ ایک حدیث ہے کہ
جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط (گرا ہوا) ہو گا۔‘‘
دوسری شادی کے لئے قرآن میں عدل اور انصاف کی شرط ہے اگر عدل نہ کرسکے اور مالی اور جسمانی حقوق زوجیت نہ ادا کرسکے تو دوسری کی اجازت نہیں اور مردوں کے لئے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک کے بھی حقوق زوجیت پورے نہ کرسکے تو ایک کی بھی اجازت نہیں اسلئے جو جیسے آپ کے ساتھ گزارا کر رہی ہیں خواہ ایک یا ۔دو کریں ان پہ شکر کر کہ آپ بھی گزارا کریں۔