غریب کون اور غربت کیا ہے؟

2271

غریب کون اور غربت کیا ہے ؟ غربت
یعنی کسی چیز کا ضرورت سے کم ہونا یا پھر بہت زیادہ کم ہونا۔ جسکی مناسبت سے کسی کو غریب کہتے ہیں..
آپکے خیال میں غربت صرف پیسوں کی کمی کو کہتےہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی ایسا ہی سوچتی تھی پھر آہستہ آہستہ مجھے اندازہ ہوا غربت اور بھی کئی طرح کی ہوتی ہے۔جن میں
پیسوں کی کمی والے غریب کہتے ہیں
اعضاء کی کمی والے کو بھی غریب کہتے ہیں
وسائل کی کمی والے کو بھی غریب کہا جا سکتا ہے
احساس کی دولت سے محروم شخص بھی دراصل غریب ہے۔
اور سوچ کے غریب لوگ بھی غریبوں میں شمار ہوتے ہیں
              پہلا غریب شخص جس کے پاس پیسہ کم ہے گھر بہت چھوٹا ہے اور کہیں کسی کے پاس ذاتی بھی نہیں گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی پورے بھی نہیں ہوتے وہ شخص جو مہنگی سبزی نہیں خرید سکتا اور پھل بھی جس کی پہنچ سے باہر ہوں وہ شخص غربت کی  تعریف پر پورا اترنے والا پہلا غریب ہے

دوسرا غریب وہ شخص ہے جو اعضاء کی کمی کا شکار ہے اس میں اسکی کوئی غلطی نہیں مگر دنیا میں اسکی کوئی اہمیت نہیں وہ شخص بھی دراصل غریب ہے گو یہ اللہ کی طرف سے ہے مگر انسانوں کی گفتگو میں اسے بزرگوں کی کسی زیادتی کا نتیجہ کہتے ہیں ایسے لوگ بھی غریب لوگوں میں ہی شمار کیے جاتے ہیں

غربت کی تعریف میں تیسرے نمبر پر ان لوگوں کو شمار کر سکتے ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہو یعنی ہنر شوق اور قابلیت سب ہو مگر اس کا مظاہرہ کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہ ہو اور اسکی زندگی یونہی گزرتی چلی جائے تو ایسے لوگ بھی غریب ہوتے ہیں

چوتھے نمبر پر وہ غریب لوگ ہیں جن کے دل میں احساس نامی جذبہ موجود ہی نہیں جنہیں صرف اپنی تکلیف دکھائی دیتی ہے یا کچھ لوگ ایسے بھی بےحس ہو گئے ہیں کہ انہیں اپنی تکلیف بھی زرا محسوس نہیں ہوتی احساس سے خالی دل لے کر ہمیشہ چلنے والا شخص بھی دراصل ایک کم پیسے والے شخص جتنا ہی غریب ہے

-advertisement-

پانچویں نمبر پر وہ غریب آتے ہیں جن کے پاس اچھی سوچ کی کمی ہے سوچ کی کمی سے مراد ہرگز پاگل یا سادہ افراد مت لیجئے گا یہ دراصل پڑھے لکھے کم دماغ والے ہیں جن کی نظر میں انکے علاوہ ہر شخص بیوقوف ہے جنکو لگتا ہے عقلِ ُکل سے بس وہی نوازے گئے ہیں

اور پانچویں نمبر والے غریب دراصل اصل غریب ہیں.
کیونکہ ان لوگوں کو اپنی بات کبھی غلط نہیں لگتی اور جو خود کو ہمیشہ درست سمجھے وہ دراصل انسانوں میں شمار کی جگہ بھی نہیں رکھتا_
                   کیونکہ جس سے کوئی غلطی نہ ہوئی ہو وہ انسان ہی نہیں کیونکہ ایسے لوگ فرشتہ ہوتے ہیں اور فرشتے دنیا میں نہیں رہتے۔ اور رہے انسان تو انسانوں کو غلطی کرنے کی اس سے سیکھنے اسے دوبارہ نہ دہرانے کی عادت ہوتی ہے پھر بھلے وہ کسی کو یہ جتائے یا نہ جتائے وہ دل میں اس بات پہ خود لعن طعن ضرور کرتا ہے جس پہ اسے یقین ہو کہ وہ غلط تھا سوچ کے غریب لوگوں میں عورتوں کا ذکر کیا جائے تو وہ شک کرتی ہے حسد کی عادی ہوتی ہے کسی کی اچھائی اس سے برداشت نہیں ہوتی وہ خود سے محبت کرتی ہے مطلب خودپسندی کی انتہا پر ہوتی ہے اسے دولت بھاتی ہے. ایسی عورت چاپلوس بھی ہوتی ہے وہ جسے کام کے راستے سے فرق نہیں پڑتا بلکہ اسے کام سے دوگنا معاوضہ چاہیے ہوتا ہے اور آخر میں اس کی وجہ سے کیا ہوتا ہے عورت خود کو تباہ کر لیتی ہے یہ سب تو آپ نے ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو میں بھی دیکھا ہو۔

اور اگر اس موضوع کے حوالے سے مرد پہ بات کی جائے تو وہ زیادہ مضر ہے
وہ عورت کے پڑھے لکھے ہونے کے خلاف ہوتا ہے
اس کے خیال میں پڑھی لکھی عورتیں پھوہڑ ہوتی ہیں
یعنی یہ امید رکھی جائے کہ وہ مستقبل میں اپنی بیٹی کو نہیں پڑھائے گا
ایسے مرد عورتوں کی طرح اکثر خودپسند ہوتے ہیں
ایسے مرد صرف اپنے گھر کی یا حد سے حد خاندان کی عورتوں کی عزت کرتے ہیں
ایسے مردوں کا ٹاپک ہمیشہ عورت ہوتا ہے
مرد کا دل عورت سے بڑا بنایا گیا ہے عورت بےصبر ہوتی ہے مرد نہیں لیکن ایسے لوگ بےصبرے ہوتے ہیں
اور پھر کیا فرق پڑتا ہے دل میں عورت کا احترام ہی نہ ہو اور وہ اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرے
عورت ہر طرح کے مرد کو ہینڈل کر سکتی ہے سوائے مردوں کی دو قسم کے….
ایک وہ جو شک کرتے ہیں مرد کا شک عورت کے شک سے کہیں زیادہ خطرناک ہے
اور وہ مرد جو کسی عورت کی عزت نہیں کرتے ایسے مردوں سے بات کرنا بھی دراصل اپنے آپ میں ایک جہاد ہے

پہلا غریب جس کے پاس پیسے نہیں ہیں اگر وہ محنت کرے تو اللہ ایسا نہیں کہ اسکی مدد نہیں کرے گا ہم نے بہت سے امیروں کی کہانیوں میں انہیں غریب پڑھا ہے محنت سے قسمت بدلی جا سکتی ہے ایسے لوگوں کو اللہ کی اس بات کا سب سے پہلے شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے انہیں مکمل تو بنایا ہے

    وہ غریب جسکے پاس اعضاء کی کمی ہے اس غربت کی تو کبھی بھی کوئی اس غربت کو دور کر سکتا ہے نہ اسے ختم کر سکتا ہے لیکن اگر غور کریں تو اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے کچھ انسانوں کو وسیلہ بنایا ہوتا ہے تو شکر کی وجہ انکے پاس بھی ہے۔

   وسائل کی کمی اتنا بڑا مسئلہ ہرگز نہیں کہ انسان اسکی خاطر خود کو پیچھے رہنے دے کوشش کرے محنت اور جدوجہد کا خود کو عادی بنائے تو وسائل کی کمی دور کرنے کے لیے حیلے اور وسیلے بنتے جائیں گے ۔

رہے باقی دو غریب احساس اور سوچ کے غریب تو یقین جانئیے یہ وہ غربت ہے جو صرف دعا سے دور ہو سکتی ہے کیونکہ دعا ان غربتوں کا آخری حل اور علاج رہ جاتی ہے اس کے علاوہ متعلقہ افراد خود کوشش کریں تو ہی یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی اس غربت کو پہچانیں اور پھر اسے ختم کرنے کی کوشش کریں_

By: مہہ ثنا خان

Also Read Writer previous Articles: