بھارتی صحافی ادریسہ پنڈت نے بھارت کا اصل مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔

1219

سری نگر: اوپن ڈیموکریسی نے انکشاف کیا ہے۔ کہ بھارت کشمیر کے تنازع کو ”دہشت گردی ”کی شکل دے کر آگے بڑھانا چاہ رہا ہے۔ جبکہ بھارت کی قومی سلامتی کو خطرہ کسی دہشت گردی سے نہیں بلکہ یہاں آئندہ جنم لینے والے فرقہ وارانہ تشدد سے ہے۔

”اوپن ڈیموکریسی ” نامی ویب سائٹ پر”رینسن یونیورسٹی کالج ، یونیورسٹی آف واٹرلو” کے شعبہ ”اسلامک اسٹڈیز کی ڈائریکٹر ، ایسوسی ایٹ پروفیسر ”ادریسہ پنڈت ” نے اپنے ایک آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے دل دھلا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ اپنے آرٹیکل میں انھوں نے لکھا ہے۔ کہ 1992ء میں ، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک بھارتی فوجی نے ایک حاملہ کشمیری خاتون کو اپنی رائفل کے بٹ سے نشانہ بنایا اور نفرت بھرے یہ الفاظ کہے:

”اس دہشت گرد  سے فوری نجات حاصل کرو جس کو تم پیدا کرنے جا رہی ہو”۔

انھوں نے لکھا کہ یہ واقعہ آج تک میرے دماغ میں ایک دردکے طور پر زند ہے ہے۔ اس واقعہ سے مجھے یہ بات اخذ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔ کہ بھارتی افواج جموں کشمیر میں کس دلیری اور آزادانہ طریقے سے ظلم کر رہے ہیں۔

یہ واقعہ انہی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ہندو قوم پرست بھارتی حکمرانوں کے ذہنوں کی عکاسی کرتا ہے۔ جو آج کل جموں کشمیر کی حالیہ تقسیم اور اسے جبراً اپنے ساتھ ملانے کا جشن بنا رہے ہیں۔

-advertisement-

یہ لوگ اسے مسلمانوں پر فتح کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جن کی سرزمین اور خواتین فتح کی منتظر ہیں۔

اکتوبر میں بھارتی حکومت کے ایک انتہائی اعلیٰ عہدیدار نے دہائیوں سے جاری کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو ”دہشت گردی ”سے جوڑنے کی کوشش کی۔جبکہ بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت نے بھی اسی طرح کشمیر میں 100 دونوں سے جاری بھارتی فوج کے محاصرے اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کوبقول ان کے ”دہشت گردوں ” اور پاکستان میں ان کے معاونین کے درمیان رابطوں کو ختم کرنے کیلئے جائز قرار دیا ہے ۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بھارتی حکومت کے یہ اعلیٰ عہدیدار یہاں بھارت کے قومی سلامتی کے سابق مشیر کے اس انتباہ کو نظر انداز کررہے ہیں جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا تھا بھارت کو سب سے بڑا خطرہ پاکستان یا چین سے نہیںبلکہ بھارت کے اندرپھیلنے والے فرقہ وارانہ تشدد سے ہے۔

ادریسہ پنڈت نے مزید لکھا کہ :”اس وقت مسلم مخالف قوم پرست اور دائیں بازو کے سیاسی راہنماکشمیر کے تنازع پر جاری تحریک کو ”دہشت گردی ” سے جوڑنے کے زبردست حامی ہیںجبکہ بھارت کے اندر بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی حکومت اپنی سیاسی پہچان کیلئے مذہب کو بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے ”اسلامو فوبیا ” کے تاثر کو بھڑکا رہی ہے ۔

ادھر بھارتی میڈیا ایک منظم پروپیگنڈے میں مسلمانوں کی کردار کشی کر کے مسلمانوں کی ساکھ کو متاثر اور اسلام کو دوسرے مذاہب کیلئے دشمن کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔

یہاں بھارتی حکومت نے ”دہشت گردی ” کا خوف پھیلا کر اسے اپنے حق میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے اور یہاں کے مسلمان شہریوں کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو پامال کیا ہے۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد سے ہی مسلمانوں کو باقاعدگی سے غیر انسانی سلوک اور شیطانیت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔پوری دُنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم اور تنظیمی بنیاد وں پر کی مہم چلائی گئی جس کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان ہیں تھے۔

اس مسلم مخالف مہم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف و ہراس سے بیشتر ممالک کی حکومتوں نے اپنے مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو پامال کرنا شروع کر دیا۔

اور انتہائی منظم انداز سے چلنے والی مہم سے نکلنے والے ”اسلامو فوبیا ” نے تمام مسلمانوں کی بدنامی کو فروغ دیا اور اسلا م کو عالمگیر ”دہشت گردی”کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔

آرٹیکل میں مزید لکھا گیا ہے کہ کشمیریوں کی ”حق خود ارادیت ” کی خالصتاً اپنی جدوجہد نے 1947ء میں غیر منصفانہ تقسیم ہند سے جنم لیا۔ 1990ء کی دہائی کے شروع میں مسلح مزاحمت کے ایک مختصر عرصے کے علاوہ کشمیریوں کی آزادی کی یہ تحریک بنیادی طور پر عدم تشدد پر مبنی پرامن تحریک رہی جبکہ اس پرامن تحریک کو کچلنے کیلئے ردعمل کے طور پر ہمیشہ کشمیریوں پر تشدد اور ظلم ہی کیا گیا۔

اب بھارت کشمیریوں کی حق خود ارادیت کیلئے اس جدوجہد کو ایک مذہبی تحریک اور بھارت کے خلاف جہاد کی حیثیت سے پیش کررہا ہے۔کشمیریوں کی حق خودارادیت کی اس ”پرامن تحریک ” کی تشریح اب بھارت”دہشت گردی ” کے طور پر کر رہا ہے ۔ بھارت اب دُنیا میں مسئلہ کشمیر کو ”دہشت گردی”کے مسئلے کے طور پر پیش کررہا ہے ۔

ادریسہ پنڈت نے کہا کہ جموں کشمیر میں جاری نوجوانوں کی مزاحمت کے حوالے سے میری اپنی ذاتی تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نوجوانوں کی ایسی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو جاری ”تحریک آزادی ” کو مذہب سے جوڑ رہے ہیں۔لیکن ان کے بارے بھی ایسے کوئی شواہد نہیںمل سکے جن میں یہ خیال کیا جا سکے کہ ان کی جدوجہد کوئی مذہبی جدوجہدہے۔ اس میں زیادہ تر نوجوانوں کا یہی کہنا تھا کہ;

اگر بھارتی حکومت ہماری آزادی کی ”پرامن ” جدوجہد کو طاقت سے دبانے کی اسی طرح کوشش کرتی رہی تو پھر وہ بھی اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے ۔پھر اس بات کی تصدیق 2016ء میں اس وقت عیاں ہوگئی جب کچھ نوجوانوں کی طرف سے بھارتی مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی اطلاعات منظر عام پر آئیں۔

حکومت بھارت نے حال ہی میں اپنے اندازے پر مبنی ایک رپورٹ دی ہے جس میں کہا ہے کہ اس وقت کشمیر میں 200 عسکریت پسند سرگرم ہیں۔اگر بھارت کی اس بات کو سچ بھی مان لیا جائے تو بھی مٹھی بھر عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے 9 لاکھ سے زیادہ افواج کی یہاں تعیناتی کا کوئی جواز نہیں بنتا ”۔

حکومت کا یہ دعویٰ بھی جموں کشمیر میں اپنی افواج کی موجودگی کے جواز کے طور پر کیا جا رہا ہے کیوں کہ اس وقت دُنیا میں جموں و کشمیر کو سب سے بڑا ”فوجی علاقہ ” قرار دیا جارہا ہے جہاں پر بھارتی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں فوجی دستے تعینات کر رکھے ہیں ۔

بھارت کی یہ کہانی بھی یہاں کھل کر سامنے آ گئی کہ بھارتی حکومت کا یہاں اتنی بڑی تعداد میں افواج تعینات کرنا دراصل متنازع علاقے جموں کشمیر کے عوام کی مرضی کے بغیر یک طرفہ طور پر اس کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنااور یہاں کے عوام کو زیر تسلط رکھنا تھا ۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں کشمیریوں کی تحریک کے دوران کشمیر کے اندر ہونے والی شہادتوں کا شمار کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ اندازے سے جو معلوم ہو سکاہے اس کے مطابق آج تک 1 لاکھ سے زیادہ کشمیر ی مارے جا چکے ہیں ،ہزاروں لاپتہ ہیں ، 10 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں جن میں سے بیشتر معذوز ہو چکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ بھارتی افواج کی ان تشدد آمیز کارروائیوں میں خواتین اور بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ تک بنایا گیا ہے ۔

READ This original Article In English by open Democracy.