ISI some Surprising Facts About Inter services-Intelligence

1905
Why ISI is Number one intelligence Agency in the world, complete details, history of ISI and Facts about ISI.
Image: Logo of Pakistani Inter Services Intelligence (ISI). Image via social media.

Many of us wonder, what is Inter services intelligence (ISI). Those who have heard the name of ISI, may not aware that ISI is Number one intelligence Agency in the world during past 9 years. But why ISI is Number one? Even better than American, British, Israeli, French, German, Indian intelligence Agencies. Below is the complete history and Facts about Elite ISI of Pakistan.

ISI SOME SURPRISING FACTS IN URDU.

If  You are English Speaker Then watch the Video, otherwise Keep Reading Below.

آئی ایس آئی، انٹرسروسز انٹیلیجنس نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی سب سے زیادہ طاقتور اور بارسوخ ایجینسی مانی جاتی ہے ۔ ISI , جسے Inter-Services_Intelligence بھی کہا جاتا ہے۔

اس ایجینسی کا قیام جنوری 1948  میں عمل میں آیا۔۔ آئی ایس آئی می عموما پاکستان آرمی ائیرفورس اور نیوی کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکار لیے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ کئی شعبوں میں سویلین افراد کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے۔ 

-advertisement-
Video: Why ISI in number one intelligence Agency in the world. Complete history, details and Facts about Inter services intelligence (ISI).

بھرتی کا طریقہ کار نامعلوم ہے۔ کبھی کوئی اشتہار نہیں دیا جاتا ، جس سے پتہ چلے کی کسی روائیتی ادارے میں بھرتی ہو رہی ہے۔   “It is Part of Pakistan Army but but it operates generally beyond the Pakistani government as a whole.” Bruce Riedel CIA 1977-2006   امریکی جریدے “کرائم نیوز” نے 2011 میں رپورٹ کیا تھا۔ کہ آئندہ چند برسوں میں ISI دنیا کی طاقتور ترین آرگنائزیشن بن جائے گی۔

اور اس کے چند سال بعد ہی، یہ ایلیٹ ایجینسی دنیا کی نمبر ون بن کر ابھری۔ گزشتہ چار سال کی ریٹنگ پہ آئی ایس آئی سرفہرست ہے ۔  

Headquarter of ISI

آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر،  اسلام آباد راولپنڈی کے جنکشن پہ “فیض آباد” میں واقع ہے۔  باہر سے دیکھنے پہ یہ ایک عام سی نیچی بلڈنگز لگتی ہیں۔ جس کے داخلی دروازے پہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک بظاہر عام سا آفیسر کھڑا نظر آتا ہے۔

سرکاری زبان میں اس کو حمزہ کیمپ کہا جاتا ہے۔  اگر آپ نے اوجھڑی کیمپ کا سانحہ سن رکھا ہو تو یہ سانحہ اسی مقام پر ہوا تھا ۔ جسئ اب آئی ایس کا ہیڈکوارٹر سمجھا جاتا ہے ۔  

Role of ISI IN PAKISTAN

آئی ایس آئی کا بنیادی مقصد، قومی مفادات خا تحفظ ہے۔ اس کے علاوہ قومی و بین الاقوامی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیوں کا تجزیہ کر کے پاکستان آرمی کو ان حالات کے حساب سے رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔

گزشتہ سالوں میں،  اس ایجینسی نے بہت سے بڑے دہشت گردی کے حملے واقع ہونے سے پہلے روکے۔ اور ملک کو بڑے نقصانات سے محفوظ کیا۔   آئی ایس آئی کو دنیا کی سب سے بڑی ایجینسی مانا جاتا ہے۔ کیونکہ اس ایجینسی کے فیلڈ ایجنٹس کی تعداد دنیا کی کسی بھی ایجینسی سے زیادہ ہے۔

  ایک اندازے کے مطابق آئی ایس آئی کے 10،000 سے ذائد ایجنٹس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔ مگر آفیشل تعداد کبھی کنفرم نہیں ہو سکی۔   اس سے بھی زیادہ دلچسپ و حیرت انگیز بات یہ ہے۔ کہ یہ ایجینسی سرمائے کے لحاظ سے اپنے مقابل دوسری ایجینسیوں کے مقابلے میں سب سے کم بجٹ پہ چلائی جا رہی ہے۔

سی آئی اے جیسی ایجینسی نے صرف پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی معلومات حاصل کرنے کیلئے سال 2015 میں 51 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیا۔ جو کہ پاکستان کے پورے پانچ سالہ ڈیفنس بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔  لیکن آئی ایس آئی اس سے کہیں کم بجٹ اور وسائل رکھتی ہے۔ لیکن سی آئی اے جیسی ایجینسی کو ناکامی کا منہ دکھا دیا۔

ایک تاثر یہ بھی ہے۔ کہ پاکستان میں یہ ایجینسی تمام روائیتی قانونی پابندیوں سے ماورا ہو کر کام کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے ناقد اس کو ریاست کے اندر ایک اور ریاست کا نام بھی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی پالیسیاں،  روائیتی اداروں کی پالیسیوں سے ہٹ کر ترتیب دی جاتی ہیں۔

جن پہ کسی کو اعتراض اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کرپشن و بے ایمانی سے بھرے ہوئے ادارے رکھنے والے ملک میں یہی طریقہ کار آئی ایس آئی کی کامیابی کی وجہ ہے۔ ورنہ اس کو بھی باقی اداروں کی طرح سیاسی و بیوروکریسی کا بے جا اثر و رسوخ اور دخل اندازی کھوکھلا کر دیتی۔  

Operation Cyclone.

اگر آپ اس نام سے ناواقف ہیں ۔ تو وضاحت کی جاتی ہے ۔ کہ یہ ایک کوڈ نیم تھا۔ جو آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے ایک مشترکہ آپریشن کو دیا گیا۔ یہ آپریشن 1979 میں شروع کیا گیا۔ جس کا مقصد سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت اور بعد میں کئے گئے حملے کو ناکام بنانا تھا۔ یہ آپریشن 10 سال تک جاری رہا اور سویت یونین کی ناکامی اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے پہ مکمل ہوا۔

دونوں اتحادی ایجنسیاں افغان مجاہدین کو سویت یونین کے خلاف امداد فراہم کرتی رہیں۔ امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کیلئے یہ آپریشن ان کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین ثابت ہوا۔ شروعات میں سی آئی اے اس آپریشن پہ سالانہ 20 ملین سے 30 ملین ڈالر خرچ کرتی رہی۔ لیکن 1987 کے اوائل تک یہ اخراجات 630 ملین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکے تھے ۔  

Professionalism of ISI

کہا جاتا ہے،  کہ آج تک اس مایہ ناز پاکستانی ایجینسی کا کوئی بھی فیلڈ ایجنٹ کسی دوسرے ملک کی سرزمین پہ نہیں پکڑا گیا۔ یا یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستانی حکومت کسی بھی پکڑے جانے والے ایجنٹ کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیتی ہو۔

ماضی میں سکوارڈن لیڈر خالد خواجہ سے متعلق کچھ داستانوں کا چرچہ رہا۔ جسے پاکستانی حکومت کے خلاف سازش کرنے پہ پاکستان میں ہی گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن آئی ایس آئی نے اس کے اس عمل کو ذاتی فعل کہہ کر، ایجینسی کی کسی بھی قسم کی اس معاملے میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔ اور بلا الزام اس معاملے کا الزام اپنے اوپر سے ہٹانے میں کامیاب رہی تھی۔

آئی ایس آئی کا کوئی ایجنٹ بیرونی سرزمیں پہ کبھی پکڑا گیا ہو یا نہیں ۔ لیکن ایک بات واضح ہے۔ کہ یہ ایجینسی اپنےآپ کو کسی بھی ایسے متنازعہ جاسوسی مشن میں اپنی شمولیت سے الگ ظاہر کرنے میں انتہائی مہارت رکھتی ہے۔ اسی لیے آجتک کوئی دشمن کسی بھی ثبوت کے ساتھ ایسا کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا۔

اور یہی بات اس ایجینسی کی انتہائی متاثر کن ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بھی آئی ایس آئی نے بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے سینکڑوں القائدہ کے ممبران کو گرفتار کیا۔

باوجود اس کے کہ مغربی میڈیا ہمیشہ اپنے میڈیا شوز اوع فلموں میں اس ایجینسی کو منفی انداز میں دہشتگردوں کا معاون دکھاتا رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس جنگ میں آئی ایس آئی،  امریکی سی آئی کے بہت قریب کام کرتی رہی۔ اور 9/11 کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو اسی آئی ایس آئی نے ہی گرفتار کیا تھا۔ اس کے علاوہ مشہور زمانہ دہشت گرد رمزی یوسف کی گرفتاری بھی اسی ایجینسی کا کارنامہ ہے۔  

Recruitment in ISI

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ کہ یہ ایجینسی آرمی، ائیرفورس اور نیوی سے لوگوں کو بھرتی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ سویلینز کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے۔ لیکن آج تک بھرتی کا اجراء اور طریقہ کار پتہ نہیں چل سکا۔  کہا جاتا ہے کہ اگر آپ راولپنڈی بالعموم اور اسلام آباد میں بالخصوص کسی ٹیکسی میں سوار ہوتے ہیں۔ تو اپنا منہ فضول ملکی و سیاسی معاملات پر بند ہی رکھیں۔ کیونکہ ہر 3سرا ٹیکسی ڈرائیور ، آئی ایسی آئی کا انفارمر ہو گا۔  

انفارمر وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو براہ راست ایجینسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ لیکن ان کی دی گئی معلومات بلواسطہ طریقے سے آئیایس آئی کے ریگولر آفیشلز کے پاس پہنچ کر ریکارڈ اور اینیلائسز ونگ تک پہنچ جاتی ہیں۔ اسلیے آپ کی زبان کی فالتو اور بے تکی حرکت ، آپ کی صحت کیلئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔

  بےشک اس ایجینسی میں بھرتی کی بہت ناکافی معلومات میسر ہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ۔ اس ایجینسی میں شمولیت کے بعد، افراد کو ان کے رول کے حساب سے مختلف طرح کی شاندار تربیت دی جاتی ہے۔ 

تربیت کے مقامات اور طریقہ کار نامعلوم ہے۔ لیکن فیلڈ ایجنٹس کو ہائی پروفائل جاسوسی طریقہ کار اور مختلف جاسوسی آلات میں مہارت مہیا کی جاتی ہے۔ جن کو وہ آگے چل کر فیلڈ میں حسب ضرورت کام میں لا سکیں ۔  

Operation Tupac.

ٹوپاک کا لفظ سن کر اگر آپ کے دماغ میں مشہور امریکی ریپر کا حلیہ آ رہا ہے۔ تو واضع کر دوں۔ کہ اس ریپر کا آئی ایس آئی سے کوئی تعلق نہیں ۔بلکہ  یہ آئی ایس آئی کے ایک آپریشن کا کوڈ نام ہے۔ اس آپریشن کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اور اس کا مقصد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں،  جنگ آزادی لڑنے والے کشمیری مجاہدین کو تربیت و اسلحہ اور دوسری امداد فراہم کرنا تھا۔

پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق  نے یہ آپریشن شروع کروایا تھا۔ اس کا نام ٹو پاک امارو دوئم کے نام پہ رکھا گیا۔ جو کہ اٹھارہویں صدی میں پیرو کا ایک شہزادہ تھا۔ اور اس نے پیرو پعر اسپین کے تسلط کے خلاف جنگ آزادی لڑی تھی۔   انٹر سروسز انٹیلیجنس ابھی تک کشمیری مجاہدین کو خفیہ طور پہ امداد فراہم کرتی ہے۔

کیونکہ کشمیری مسلمان بھارتی تسلط سے آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بننے کے خواہشمند ہیں ۔ کشمیر کے تنازعے پر ہی دونوں مممالک میں اب تک چار جنگیں بھی ہو چکی ہیں  

Kargil War and Role of ISI

کارگل کی جنگ، سال 1999 میں پاکستانی حمایت یافتہ مجاہدین اور بھارتی افواج کے درمیان لڑی گئی۔ کارگل بھارتی سرحد کے اندر ایک قصبے کا نام ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد،  جس کو کنٹرول لائن بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ ایکٹو اور شوریدہ سرحد ہے۔

کارگل کے پہاڑی علاقے میں،  دونوں ممالک کے درمیان ایک غیر سرکاری و غیر موجود معائدہ ہے۔ جس کے مطابق سردیوں میں کسی بھی ملک کے سپاہی سرحدی پوسٹس پر نہیں رہتے۔ کیونکہ وہاں پہ موسم کی شدت برداشت کرنا انتہائی کٹھن کام ہے۔

سال 1998-1999 کے موسم سرما میں آئی ایس آئی  نے یہ معاہدہ توڑتے ہوئے،  سرما شروع ہوتے ہی، بھارتی افواج کی اہم سٹریٹجک پوسٹوں پپ قبضہ کر لیا۔  جس کے بعد ان پوسٹوں کو چھڑانے میں بھارتی افواج کو دانتوں پسینہ آ گیا۔

قابض پانچ ہزار مجاہدین کے مقابلے میں بھارت شروع میں تیس ہزار فوج لایا۔ اور ناکامی کے بعد اس فوج کی تعداد 80 ہزار تک بڑھا دی۔  یکے بعد دیگر حملوں سے بھارت اپنی پوسٹس واپس لینے میں ناکام ہوا۔ لیکن پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سفارتی سطح پر پاکستان کا کامیاب دفاع نہ کر سکے۔ اور  مجاہدین کو پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا۔

جس کے بعد پاکستانی مجاہدین کے نیچے اترتے وقت بھارتی افواج ان پوسٹوں پہ قابض ہو گئیں ۔ اور مجاہدین کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی باعث بھارت اس جنگ میں اپنی فتح کا دعوی کرتا ہے۔ لیکن اس جنگ کو اس لحاظ سے آئی ایس کی فتح بھی کہا جاتا ہے۔ کہ اپنی مقابل بھارتی ایجینسی را کو آئی ایس آئی نے مکمل ناکام کر دیا تھا۔ 

را کو مجاہدین کے قبضے کی خبر اس وقت تک نہ ہو سکی۔ جب تک مجاہدین نے بھارتی پیٹرولنگ پارٹی پہ حملہ نہ کیا۔  

Nuclear Tests.

حالانکہ آج تک ثابت نہیں ہو سکا ۔۔لیکن اس بات کے قوی امکانات ہیں ۔ کہ بھارتی ایجینسی را اور اسرائیلی ایجینسی موساد پاکستانی ایٹمی اثاثوں کی معلومات حاصل کرنے کیلئے پورا زور لگاتی رہیں۔

ان کا مقصد تھا کہ معلومات حاصل کرنے کے بعد عراق طرز کا حملہ کر کے تباہ کر دیا جائے۔ اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکا جائے۔ لیکن بہت سر مارنے کے بعد بھی دنیا کی مایہ ناز ایجینسیوں کو آئی ایس آئی نے اکیلے ناکام بنا دیا۔

پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ داری آئی ایس آئی کے پاس تھی۔ اور آئی ایس آئی آخر تک ان تنصیبات کی جگہ تبدیل کرتی رہی۔۔ حتی کہ 1198 میں چاغی کے مقام پہ پاکستان نے اچانک تجربات کر دیے۔ اور دنیا کو حیران اور پاکستان کے دشمنوں کو پریشان کر دیا۔ 

ان تجربات کا انتظام،  تجربے کرنے کے میٹیریل کی ترسیل اور آخر تک حفاظت کی زمہ داری آئی ایس آئی کے پاس ہی تھی۔ اس کام کو آئی ایس آئی کا حیرت انگیز کارنامہ کہا جاتا ہے۔

ان سب کارناموں کے علاوہ اس مایہ ناز پاکستانی ایجینسی کے سینکڑوں ایسے کارنامے ہیں۔ جو عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں ۔ اور شاید کبھی بھی منظر عام پہ نہ آ سکیں۔ کیونکہ ایسی ایلیٹ آرگنائزیشنز کا یہی طریقہ کار ہوتا ہے۔ Also Read: Reko diq gold mines Worth and Details of project.