جانیے 1973 کے آئین میں لونڈےبازی (لواطت) کو کیسے تحفظ دیا گیا ہے، سزا اتنی کم کیوں۔

1599
Punishment for child-abuser in Pakistan.

آئے روز پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ شور مچتا ہے، 4 دن حکومتی دعوے ہوتے ہیں اور اگلے واقع ہونے تک سب بھول جاتے ہیں۔ ان واقعات کے مسلسل جاری رہنے کی سب سے بڑی وجہ ست سزاؤں کا نہ ہونا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں پاکستان میں زیادتی اور بچوں کے ساتھ زیاتی کی کیا سزائیں ہیں۔

پاکستان پینل کوڈ یعنی تعذیرات پاکستان میں ریپ کے حوالے سے مندرجہ ذیل دفعات موجود ہیں؛

دفعہ 375 ، جس میں ریپ کو ڈیفائن کیا گیا ہے اور اس کے مطابق اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک شرط کے تحت جنسی عمل کرے تو یہ ریپ کہلائے گا:

  • عورت کی مرضی کے خلاف
  • عورت کی رضامندی کے بغیر
  • عورت کی رضامندی کے ساتھ جب اسےموت کا خوف دلا کر رضامند کیا گیا ہو۔
  • شادی کا جھانسہ دے کر یا جھوٹا نکاح پڑھا کر۔
  • اگر لڑکی سولہ سال سے کم عمر ہے۔ (چاہے رضامند بھی ہو، پھر بھی اس کے ساتھ جنسی عمل ریپ کہلائے گا)۔

دفعہ 376 میں مندرجہ بالا جرائم کی سزا بیان کی گئی ہے۔ جو کہ حالات کے مطابق موت یا کم سے کم دس سال قید اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید بمعہ جرمانہ ہے۔

-advertisement-
LGBT rights in Pakistan.
Image: Source

اس سے اگلی شق 377 ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی بھی عورت، مرد یا جانور سے غیرفطری عمل کرتا ہے تو اسے کم سے کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک سزا دی جاسکتی ہے۔

اس شق میں کہیں بھی ریپ یا زیادتی کا لفظ استعمال نہیں ہوا، یعنی شق 377 کے مجرم کو زیادتی کے مجرم کے برابر سزا نہیں دی جاسکتی۔

دوسری طرف شق 376 میں واضح طور پر اس مرد مجرم کا ذکر ہے جو عورت کے ساتھ ریپ کرتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے آئین اور تعذیرات میں کس طرح لونڈے بازی کو تحفظ دیا گیا۔

یہ وہ 73 کا آئین ہے جس کا تذکرہ فضل الرحمان بار بار کرتا آیا ہے، جس کے تحفظ کا وہ دعوی کرتا ہے اور اسی 73 کے آئین کے تحت آپ کسی بھی مدرسے کے بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے مولوی کو ریپ کا مجرم قرار نہیں دے سکتے۔

قاری شمس الدین کو بھی انہی شرائط پر جے یو آئی کے مفتی کفایت اللہ نے پولیس کے حوالے کیا ہے۔ کہ اس پر دفعہ 377 کے تحت چالان کاٹا جائے گا، نہ کہ 376۔

دفعہ 377 کے مطابق قاری شمس الدین کو غیرفطری عمل کا ملزم قرار دیا جائے گا۔ جس کی سزا دو سال اور دس ہزار روپے جرمانہ ہے۔ یہ سزا جیل میں اچھے کنڈکٹ کے باعث کم بھی ہوسکتی ہے اور اس کی ضمانت بھی ممکن ہے۔

اول تو قاری شمس الدین کو جیل جانے ہی نہیں دیا جائے گا، لیکن اگر وہ چلا بھی گیا تو دو سال بعد اسے تذکیہ نفس کیلئے مدارس کی تنظیم عمرہ کی ادائیگی کیلئے اپنے خرچ پر سعودیہ بھیج دے گی۔