ملک ریاض سے وصول کیے گئے کروڑوں پاؤنڈ پاکستانی حکومت کو منتقل کر دیے گئے۔

1151

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور پاکستانی حکام دونوں نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے. کہ لندن میں ملک ریاض سے ایک تصفیے کے نتیجے میں ملنے والی کروڑوں پاؤنڈ کی رقم ریاستِ پاکستان کو منتقل کر دی گئی ہے۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے خبر رساں ادارے کی طرف سے ایک ای میل کے جواب میں اس بات کی تصدیق کی کہ تمام فنڈز منتقل کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم پاکستان کے خصوصی معاون برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے ایک ایس ایم ایس پیغام میں بی بی سی کو بتایا کہ ریاستِ پاکستان کو یہ رقم منتقل ہو گئی ہے۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے ملک ریاض کے معاملے کے حوالے سے کئی ایک دوسرے سوالات بھی کیے گئے تھے لیکن انھوں نے اور کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ البتہ کسی اور پاکستانی سیاستدان کے خلاف جاری تحقیقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نہ وہ اس سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اس بات کا اقرار کرتے ہیں۔

ملک ریاض نے این سی اے کے ساتھ جو تصفیہ کیا ہے اس کے نتیجے میں مرکزی لندن کے مشہور ہائیڈ پارک کے بالکل سامنے ایک رہائشی عمارت ون ہائیڈ پارک پلیس بھی شامل ہے۔ این سی اے کے بیان کے مطابق اس عمارت کی مالیت تقریباً پانچ کروڑ پاؤنڈ ہے۔

-advertisement-

بی بی سی اردو سروس نے برطانیہ میں جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے کے مجاز ادارے لینڈ رجسٹری سے جب رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ پراپرٹی آخری مرتبہ دو سال قبل، 30 مارچ 2016 کو برطانیہ کے ورجن آئلینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی نے چار کروڑ پچیس لاکھ پاؤنڈ میں خریدی تھی۔

ملک ریاض سے تصفیے کی جو تفصیلات این سی اے نے جاری کی تھیں ان کے تحت بارہ کروڑ پاؤنڈ کی رقم آٹھ بینک کھاتوں میں جمع تھی جن کو منجمد کرنے کے احکامات ایجنسی نے اس سال اگست میں ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ سے حاصل کیے تھے۔

اس سے قبل دو کروڑ پاؤنڈ کی رقم دیگر بینک کھاتوں میں جمع تھی جنھیں دسمبر 2018 میں منجمد کیا گیا تھا۔
این سی اے نے کہا تھا کہ اس نے ملک ریاض اور ان کے خاندان سے تصفیے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 19 کروڑ پاؤنڈ یا 38 ارب روپے حاصل کیے ہیں۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی درخواست پہ 31 جنوری 2018 کو جرائم اور انسداد بدعنوانی کے برطانوی اداروں کو ’ان ایکسپلینڈ ویلتھ‘ (ایسی دولت جس کا ذریعہ واضح نہ ہو) کے قانون کے تحت اختیارات ملے تھے۔ اور یاد رہے کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے اسی دن لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں پانچ ایسی جائیدادوں کی نشاندہی کی تھی جو مبینہ طور پر اس ضمرے میں آتی تھیں۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے برطانوی اداروں سے یہ درخواست کی تھی کہ ان کے بارے میں تحقیقات کی جائیں۔ ان جائیدادوں کے مالکان کا تعلق پاکستان، روس، آذربائجان، لیبیا اور نائجیریا سے تھا۔ خبر کا ذریعہ۔